• Dr. Muqtedar Khan
  • About Ijtihad
  • Articles on Islam
  • Academic Publications
  • Foreign Languages
  • World Politics
  • Videos
    • Islam
    • Politics
  • Contact
BREAKING NEWS
مسلمانوں اور مغرب کی داستان میں خوف محض ایک مختصر باب
کیا مشرق وسطی میں تبدیلی کا موسم “پولٹزر پرائز” سے نظرانداز ہو گیا؟
میلکم ایکس کی میراث سالوں بعد بھی زندہ ہے
امریکی انتخابات میں اسلاموفوبیا پر غلبہ پانے کے امکانات
امریکی مُسلمان سب سے زیادہ روادار ہیں
پاکستان میں پریشان کُن رجحان سے جان چھڑانے کا وقت
مذہبی جنونیت اور تشدد کی مذمت میں سعودی مفتی اعظم کا خطبہ حج
حضرت محمدﷺ کا عیسائیوں کے ساتھ عہد
دہشت گردی کے خلاف ایک فتوٰی
پاک امریکہ تعلقات ایک نازک موڑ پر
ایک نیا جمہوری پاکستان
پاکستان ایک نازک موڑ پر

کیا مشرق وسطی میں تبدیلی کا موسم “پولٹزر پرائز” سے نظرانداز ہو گیا؟

Posted On May 02 2012
By : Dr. Muqtedar Khan
Comment: 0

نیوارک، ڈیلاور ۔ چند دن قبل میں انقرہ میں تھا جہاں میں وزیراعظم رجب طیب اردگان کے ایک سینیئر مشیر کے ساتھ بات چیت کر رہا تھا۔ باتوں کے دوران مین نے ان کے دفتر کے باہر ایک زوردار دھماکہ سنا جیسے کسی نے نزدیک ہی بندوق سے گولی چلائی ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں سہم گیا جب کہ میرا دوست اور ان کے معاون شور کے باوجود ٹس سے مس نہ ہوئے۔ “یہ صرف ایک صوتی بم تھا”، انہوں نے کہا۔ بظاہر لگتا تھا کہ ایسی چیزیں یہاں عام ہوتی ہیں۔ ہم کھڑکی کے قریب کھڑے ہو گئے اور دوڑ کر آتی پولیس کی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے سائرن سنے۔ میں نے اپنے پریشان دل کو اس سرگوشی سے تسلی دی، “پرسکون ہو جاؤ، یہ انقرہ ہے، کابل یا بغداد نہیں”۔

دھماکے ہماری دنیا میں معمول کی ایک نئی چیز ہیں۔ تشدد بلکہ سنگین تشدد ہماری زندگیوں کا اتنا بڑا حصہ بن چکا ہے کہ کچھ حوالوں سے ہم نے اس کا جشن منانا شروع کر دیا ہے۔

افغان اخباری فوٹوگرافر مسعود حسینی 6 دسمبر2011 کو کابل کی ایک خانقاہ میں تصویریں لے رہا تھا جب اس نے ایک زوردار دھماکہ سنا۔ چند دہشت ناک لمحات کے بعد وہ مردہ مردوں، عورتوں اور بچوں کے درمیان کھڑی دس سالہ لڑکی ترانہ اکبری کی تصویریں بنا رہا تھا۔ کابل کی اس شیعہ خانقاہ پر ایک خودکش بمبار نے حملہ کیا تھا جس میں 70 افراد مارے گئے۔ ترانہ کی روح اور حسینی کا کیمرہ اس خون آلود حقیقت کے چشم دید گواہ تھے۔

حسینی نے ترانہ کی جو تصویریں بنائیں ان میں سے ایک کو پولٹزر پرائز ملا۔ حسینی جیسے لوگ اپنی خدمات اور دلیری کے لئے ہراس انعام کے مستحق ہیں جو معاشرہ انہیں دے سکتا ہے۔ آج وہ جو کہانیاں بتا رہے ہیں کل وہ ہماری تاریخ بنیں گی۔

اس کی اہمیت کے باوجود میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ تصویر پولٹزر پرائز کی مستحق ہے۔ میرے محسوسات کا تعلق حسینی کی اپنی کامیابیوں سے نہیں بلکہ ان بڑے مسائل سے ہے جو اس بات کا تعین کررہے ہیں کہ ہم کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں۔

کہاوت ہے کہ ایک تصویر ہزار الفاظ کے برابر ہے۔ اور انعام یافتہ تصاویر تو مکمل حکایات ہیں۔ حسینی کی تصویر اب مسلمان دنیا کے حوالے سے مغرب کی نہ ختم ہونے والی کشش میں ایک نیا باب بن گئی ہے۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تصویر کی ڈرامائی نوعیت اسے انعام کا ایک مضبوط امیدوار بناتی ہے لیکن اس کے پس پشت کہانی اس وقت انعام کے لائق نہیں ہے۔

آسکر، نوبل اور پولٹزر جیسے انعامات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہم کیسے تاریخ وضح کر رہے ہیں۔ یہ انعامات ضرور صلاحیت کا اعتراف کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سیاسی درجہ بندی بھی کرتے ہیں اور یہ عکاسی کرتے ہیں کہ مغرب کیسے دنیا کو سمجھنا اور پیش کرنا چاہتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کے لئے 2009 کا نوبل امن انعام ان چند نمایاں مثالوں میں سے ایک ہے جو ہمیں یہ یاد کراتی ہیں کہ یہ ایوارڈ صرف انعامات نہیں بلکہ حکایات ہیں۔ صدر اوبامہ نے اس وقت تک انعام کا حق دار بننے کے لئے کوئی خاص کام نہیں کیا تھا لیکن 2008 کے انتخابات میں ان کی فتح کو بہت سے لوگوں نے اس وعدے کے طور پر دیکھا کہ عالمی معاملات پر امریکی مباحثہ تبدیل ہو گا اور عالمی امن کو فروغ حاصل ہو گا۔ یہ ایک ایسا پیغام تھا جو اس انعام سے مزید طاقتور بن گیا۔

تاہم 2011 میں سب سے نمایاں حکایت دہشت گردی نہیں بلکہ جمہوریت کی جستجو تھی۔ 2011 مسلمان تشدد کے باعث نمایاں نہیں ہوا بلکہ یہ آزادی کے لئے مسلمانوں کی اجتماعی پکار یعنی بہار عرب کے باعث خصوصیت کا حامل ہے۔ جوش، عہد اور امید سے بھرپور میدان تحریر کی تصاویر ان تصاویر کی نسبت زیادہ اعتراف تعریف کی مستحق ہیں جو بموں کے پھٹنے، میزائلوں کے گرنے اور ڈرون کے حملوں کے بعد کے مناظر پر مشتمل ہوتی ہیں۔

میرا خیال ہے کہ 2011 میں کمیٹی برائے نوبل امن انعام نے لائیبیریا کی ایلن جانسن سرلیف اور لیماہ گبووی اور یمن کی توکل کرمان کو انعام دے کر امن ساز خواتین کے کردار کا اعتراف کرتے ہوئے تاریخ کی رو کی پیروی کی۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ بدقسمتی سے پولٹزر پرائز نے اس برس تبدیلی کے موسم کو نظر انداز کر دیا۔

Article available in: English, French, Indonesian, Arabic, Hebrew

About the Author
Dr. M. A. Muqtedar Khan is Professor in the Department of Political Science and International Relations at University of Delaware.
  • google-share
Previous Story

میلکم ایکس کی میراث سالوں بعد بھی زندہ ہے

Next Story

مسلمانوں اور مغرب کی داستان میں خوف محض ایک مختصر باب

Leave a Reply Cancel reply

*
*

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Latest Articles

Bangladesh and Pakistan Are Changing South Asia’s Geopolitical Landscape  

India's Grand Strategy | India’s claim of pursuing ‘strategic autonomy’ in its foreign policy is a facade

Modi 3.0: Continuity in Policy and Prejudice

MOST POPULAR

Prophet Muhammad's Promise to Christians

No Responses.

Islam, Hinduism and Truth

No Responses.

Ibn Rushd the King Philosopher

No Responses.

American Muslims should welcome same-sex marriage ruling

No Responses.

What is Independent Thinking?

No Responses.
Copyright 2014 Muqtedar Khan. All Right Reserved. Powered by Creative Studio.